سید منظور الحسن

ہندوستان کی ریاست کرناٹک میں ایک مسلمان بچی مسکان خان نے حجاب کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ ۸؍ فروری ۲۰۲۲ء کو طلبا کے ایک گروہ نے کالج کے ڈریس کوڈ کو بنیاد کر اُسے حجاب اتارنے کے لیے اصرار کیا۔ اُس نے کمال جرأت و بہادری سے اِس جبر کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اِس موقع پر ہجوم کے نعروں کے جواب میں اُس نے ''اللہ اکبر ''کی صدا ئیں بلند کی۔ یہ اُس کی اسلام سے وابستگی کا برملا اظہار تھا ۔ اِس واقعے کو دنیا بھر میں شہرت حاصل ہوئی۔ لوگوں کی طرف سے ملا جلا رد عمل سامنے آیا۔ بیش تر نے اِسے مذہب کے حوالے سے دیکھا اور اپنے اپنے مذہبی تناظر میں بچی کے اقدام کی حمایت یا مخالفت کا اعلان کیا۔ بعض لوگوں نے ڈسپلن اور نظم و ضبط کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اِس کی مذمت کی۔ بعض نے اِسے آزادیِ راے کی جد وجہد سے تعبیر کرتے ہوئے اِس کی بھر پور تائید کا اظہار کیا۔ استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی سے بھی اِس ضمن میں استفسار کیا گیا۔ اِس کے جواب میں اُنھوں نے سیر حاصل گفتگو کی جس کے چند اہم اجزا کا خلاصہ افادۂ عام کے لیے درج ذیل ہے۔

انسانی حقوق (human rights)
انسان کو اللہ تعالیٰ نے آزاد پیدا کیا ہے۔ اپنےشخصی معاملات اور ذاتی دائرے میں وہ خود مختار ہے۔ وہ اگر پروردگار کو معبود مانتاہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے، اسلام کو قبول کرتا ہے تو یہ اُس کا شخصی اور اختیاری معاملہ ہے۔ وہ اگر اِس کے برعکس فیصلہ کرتا ہے تو اُسے اِس کا اختیار بھی حاصل ہے۔ اِسی طرح اُس نے کیا وضع اپنانی ہے، کیا لباس پہننا ہے، کون سی زبان بولنی ہے، کیا تعلیم حاصل کرنی ہے ، کون سا پیشہ اختیار کرنا ہے، کون سی معاشرت میں رہنا ہے، کس نظریے کا ساتھ دینا ہے ، کس مذہب کو اپنانا ہے، یہ سب اُس کے شخصی معاملات ہیں۔ اِن میں وہی مجاز و مختار ہے، کسی دوسرے کو اِن میں مداخلت کا حق نہیں ہے؛ نہ فرد کو، نہ معاشرے کو، نہ حکومت کو، نہ اہل سیاست کو ، نہ اہل مذہب کو۔ یہ آزادی اُس کی فطرت کی آواز ہے اور اُس قانون آزمایش پر مبنی ہےجس پر اللہ تعالیٰ نے اِس دنیا کو قائم کیا ہے۔

انسانی فطرت کا یہی تقاضا ہے جسے جدید اصطلاح میں''بنیادی انسانی حقوق'' (fundamental rights) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انسان صدیوں کے سفر کے بعد اِن کے تعین کی منزل تک پہنچا ہے۔ اُس کا اجتماعی ضمیر بالآخراِس امر پر متفق ہوا ہے کہ جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ اُس کا بنیادی حق ہے اور خور و نوش،رسوم و آداب، تہذیب و ثقافت ، معیشت و معاشرت اور دین و مذہب میں شخصی آزادی اُس کی ناگزیر ضرورت ہے ۔ چنانچہ اقوام عالم میں اِن بنیادی حقوق کو مسلمہ قدر کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے اِنھیں اپنے منشور میں شامل کیا ہے۔ بیش تر ریاستوں کے دساتیر میں یہ درج ہیں۔ یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ اِن کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی جائے گی ۔ ایمرجنسی میں اِنھیں معطل بھی کرنا پڑا تو حالات بدلتے ہی بحال کیا جائے گا۔

بنیادی انسانی حقوق کی یہ اہمیت پوری طرح مسلم ہے، مگر اِس کے باوجود دنیا میں یہ پوری طرح نافذ العمل نہیں ہیں۔ اِس وقت بھی بہت سے ملک ہیں، جہاں اِن کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ بہت سے علاقے ہیں، جہاں پرانے زمانے کے طریقے پر فاتحین نے بادشاہت قائم کر رکھی ہوئی ہے۔ کئی ممالک ہیں جہاں، انقلابی اقدامات کے نتیجے میں مذہبی طبقوں یا کچھ خاص نظریاتی گروہوں کی حکومتیں ہیں اور وہ اپنے نظریات اور افکار کو بالجبر لوگوں پر نافذ کرتی ہیں۔

بنیادی حقوق اور حکومت و ریاست
جدید دور کی ریاست اِنھی حقوق کے تحفظ کے لیے قائم ہوئی ہے۔یعنی حکومت کا مقصد وجود ہی یہ ہےکہ شہریوں کے بنیادی حقوق کو تلف ہونے سے بچایا جائے، اُن کی جان ، مال، آبرو اور راے کے خلاف زیادتی کو روکا جائے اور اُس فتنہ و فساد کو راہ نہ دی جائے جو انسانوں کے ارادہ و اختیار کے سوء استعمال سے پیدا ہوتا اور دوسرے انسانوں کے حقوق کو سلب کرنے کا باعث بنتا ہے ۔ یہی ضرورت ہے جس کے لیے حکومت قائم کی جاتی ہے۔ چنانچہ حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ اِس ضرورت کی تکمیل تک محدود رہے، اِس سے آگے بڑھ کر اُسے شخصی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے ۔ یہ اس کے دارئرۂ اختیار( Jurisdiction) ہی سے باہر ہیں۔ لہٰذا بادشاہت ہو، پاپائیت ہو، آمریت ہو ، جمہوریت ہو یا ہندوؤں کی حکومت ہو، بدھوں کی ہو، یہودیوں کی ہو، مسیحیوں کی ہو یا مسلمانوں کی ہو، ہر حال میں اُسے بنیادی حقوق کی حفاظت کرنی ہے، اُن میں مداخلت نہیں کرنی۔

لباس کا انتخاب ــــــ ایک بنیادی انسانی حق
لباس اور وضع قطع کا انتخاب انسانوں کا بنیادی حق ہے ۔ یہ خالص شخصی معاملہ ہے۔اِس میں نہ کسی پارلیمان کو مداخلت کا حق ہے، نہ کسی حکومت کو اور نہ کسی عدالت کو۔ جو خاتون چہرے کو ڈھانپ کر رکھنا چاہے تو اُسے اِس کا حق حاصل ہے اور جو اُسے ظاہر کرنا چاہے ، اُسے بھی اِس کا حق حاصل ہے۔ چنانچہ مثال کے طور پر فرانس کی حکومت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسکارف کے خلاف قانون سازی کرے، نہ ہندوستان کی حکومت یا سپریم کورٹ کو اِس طرح کا کوئی حق حاصل ہے۔ اِسی طرح سعودی عرب یا افغانستان کی حکومتوں کو بھی یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ خواتین کے لیے حجاب یا کسی خاص لباس کو لازم کریں۔ اِس طرح کی کسی مداخلت کا جواز نہ ترکی اور ایران میں ہے اور نہ یورپ اور امریکا میں۔

لباس کے بارے میں اسلام کے احکام
اِس میں شبہ نہیں کہ اسلام نے لباس اور وضع قطع کے بارے میں واضح رہنمائی دی ہے، لیکن اُس کا مخاطب فرد ہے،حکومت یا ریاست نہیں ہے۔ اُسی طرح جیسے ایمانیات اور عبادات کے معاملات فرد سے متعلق ہیں۔ اِس مقصد کے لیے دین نے فرد کو براہ راست مخاطب کیا ہے، ریاست کا توسط اختیار نہیں کیا۔ لہٰذا خود دین کا تقاضا ہے کہ اگر مسلمانوں کی حکومت بھی قائم ہو تو وہ بھی اِن میں مداخلت سے مجتنب رہے۔

مزید یہ کہ دینی احکام چونکہ محل تدبر ہیں، اِس لیے اصحاب علم کے غور و فکر کے نتیجے میں اِن کی تعبیر و تشریح میں اختلاف ایک حقیقت واقعہ ہے۔ اِس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔

چنانچہ یہ ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے کہ وہ کس مذہب کو قبول کرتا ہےاور اُس کی تعبیر و تشریح میں کس راے کو صحیح اور کس کوغلط سمجھتا ہے۔ پھر جسےوہ صحیح سمجھتا ہے، اُس پر مبنی احکام میں سے کن پر عمل پیرا ہوتا ہے اور کن کے بارے میں کوتاہی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ اِس معاملے میں وہ معاشرے یا ریاست کو جواب دہ نہیں ہے، اپنے پروردگار کو براہ راست جواب دہ ہے۔ اِسی جواب دہی پر اُس کی عاقبت کا انحصار ہے ۔ لہٰذاکسی سیکولر حکومت، کسی مذہبی حکومت، کسی بادشاہت، کسی پاپائیت، کسی جمہوریت کو اِس جواب دہی میں دخل اندازی کا اختیار نہیں ہے۔

لباس کے انتخاب پر ڈسپلن کی دلیل
لباس اور وضع قطع کے شخصی حق کے خلاف ڈسپلن اور ڈریس کوڈ کی دلیل بھی درست نہیں ہے۔سسٹم اور ڈسپلن انسانوں کی ضرورت اور سہولت کے لیے قائم ہوتے ہیں، اُنھیں اِسی حد تک محدود رہنا چاہیے۔ اگر وہ بذات خود مطلوب بن جائیں اور سہولت کے بجاے تکلیف کا باعث ہوں تو اِس صورت میں اُن کا نقصان اُن کے فائدے سے زیادہ ہو جاتاہے۔ ایسے نظام یا نظم و ضبط کو انسانیت کا اجتماعی ضمیر جلد یا بدیر رد کر دیتا ہے ۔ انسانوں کے لیے وہی نظام مفید ،موثر اور پایدار ہوتا ہے جس کے اندر لچک اور تبدیلی کی گنجایش ہو اور لوگ اپنے حقوق قربان کیے بغیر اُس سے مستفید ہو سکیں۔ اِس کی مثال تقسیم ہند سے پہلے برطانیہ کی فوج کا ڈسپلن ہے۔ اِس میں سکھوں کو یہ اجازت تھی کہ وہ چاہیں تو اپنے مذہب کے مطابق بال ترشوانے سے اجتناب کریں اور سر پر پگڑی باندھ لیں۔ حکومتوں اور اداروں کو اپنے اپنے دائرۂ عمل میں ایسے اقدامات کو ترویج دینی چاہیے۔ چنانچہ مثال کے طور پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ سہولت ملنی چاہیے کہ وہ کام کے اوقات میں نماز کو بہ حسن و خوبی ادا کرسکیں۔اسی طرح دفتروں میں،کارخانوں میں، تعلیمی اداروں میں اُن کے شعائر کا احترام ملحوظ رکھا جائے۔ مسلمانوں کو بھی اپنی ریاستوں اور اپنے اداروں میں یہی طرز عمل غیر مسلموں کے لیے اختیار کرنا چاہیے۔

مسکان خان کا اقدام
مسکان خان کا اپنے حجاب کے لیے آواز بلند کرنا لائق صد تحسین ہے۔ اُس نے کمال جرأت و بہادری کے ساتھ اپنے شخصی حق کی حفاظت کی ہے اور اپنے اقدام سے بتایا کہ اُس کے لباس کے معاملے میں ، اُس کے مذہبی خیالات کے بارے میں کسی کو دخل اندازی کا حق نہیں ہے۔ اُس نے یہ مثال قائم کی ہے کہ جب کوئی نظام، کوئی ادارہ، کوئی معاشرہ، کوئی حکومت ، کوئی عدالت انسان کے ذاتی فکر و عمل میں مداخلت کرنے کی جسارت کرے تو اُس کے خلاف کیسے احتجاج کرنا چاہیے۔ اِس موقع پر اُس کا ''اللہ اکبر'' کی صدا بلند کرنا اُس کی اپنے مذہب کے ساتھ ذاتی وابستگی کا اظہارہے۔ یہ اِس بات کا وا شگاف اعلان ہے کہ وہ اللہ کو سب سے بڑا مانتی اور اُس پر بھروسا کرتی ہے۔ اُس نے یہ کام ایک بچی ہونے کے باوجود کیا ہے، تن تنہا کیا ہے اور مردوں کے ہجوم کے مقابل میں کیا ہے۔ یہ اُس کے عزم و ہمت کی مزید دلیل ہے۔ اپنےنظریے، اپنے حق اور اپنی آزادی کے تحفظ کے لیے کھڑے ہونے والے ایسے افراد انسانیت کے نگہبان اور محافظ ہوتے ہیں۔ ہمیں اُن کی آواز میں آواز ملانی چاہیے اور اُن کی جرأت کو سلام پیش کرنا چاہیے۔

مسکان خان کی حمایت کا تقاضا
ہماری یہ تحسین اور حمایت صرف اُس بچی کے لیے نہیں ہونی چاہیے جس نے ہندوستان میں کھڑے ہو کر حجاب کے حق میں نعرہ بلند کیا ہے، اِس کےساتھ اُن بچیوں کے لیے بھی ہونی چاہیے جو پاکستان ، ایران، افغانستان اور سعودی عرب کے اندر کھڑے ہو کر حجاب کی پابندی کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہیں۔ دونوں جانب ایک ہی اصول ہے کہ مذہب ، مذہب کی تشریح اور اُس کے رد و قبول کا تعلق انسان کے ذاتی معاملے سے ہے، اِس میں دوسرا شخص یا نظم اپنی راے مسلط نہیں کر سکتا۔

عدالت سے رجوع
ہندوستان کے مسلمانوں نے اِس مسئلے کو سپریم کورٹ میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپنے حق کے تحفظ کے لیے یہ اقدام بھی صائب ہے، لیکن اِس معاملے میں ضروری ہے کہ وہ اپنے موقف کو درست اور قابل قبول استدلال پر قائم کریں۔ یعنی کسی خاص تعبیر پر مبنی مذہبی دلائل پیش کرنے کے بجاے بنیادی انسانی حقوق کو بناے استدلال بنائیں۔ اِس کے نتیجے میں اُن کا مقدمہ مبنی بر صحت بھی ہو گا اور اُس کی کامیابی کے امکانات بھی ہوں گے۔ لیکن اگر وہ اُس کے لیے مذہبی استدلال اختیار کرتے ہیں تو مسئلہ خلط مبحث کا شکار ہو کر بے نتیجہ رہے گا۔

اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہی اصول، وہی قانون، وہی استدلال فیصلے کی بنیاد بن سکتا ہے جو مدعی ، مدعا علیہ اور عدالت کے مابین مشترکہ طور پر قابل قبول ہو۔ ظاہر ہے کہ نہ مذہب اسلام کو ہندوستان کی اجتماعیت میں یہ مقام حاصل ہے اور نہ اِس کی کوئی مخصوص فقہی تعبیر تمام مسلمانوں کے مابین تسلیم شدہ ہے۔ چنانچہ یہ درست طریقہ نہیں ہو گا کہ وہ فقہا کی کتابیں لے کر عدالت میں پہنچ جائیں اور اُن کی بنیاد پر اُسے پردے کے احکام کا قائل کرنے کی کوشش کریں۔ پردے کے احکام کا تعین عدالت کا کام نہیں ہے۔ یہ شخصی معاملہ ہے جسے مسکان کو یا دیگر خواتین کو خود طے کرنا ہے۔ اِس کا تعین وہ اپنی تحقیق کی بنا پر کرتی ہیں، اپنے احساس کی بنا پر کرتی ہیں ، معاشرتی رسم و رواج کی بنا پر کرتی ہیں یا کسی عالم کی راے کی بنا پر کرتی ہیں ؛ جس بنا پر بھی کرتی ہیں ، ہر صورت میں یہ اُنھی کا حق ہے۔اُن کے اِسی حق کو ہماری حمیت اور حمایت کی بنیاد بننا چاہیے۔


This free site is ad-supported. Learn more