مینار پاکستان پر ایک خاتون کو ہراساں کرنے کا معاملہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک دوسری وائرل وڈیو نے دل و دماغ دونوں کو زخمی کر دیا۔لاہور میں ایک بھری پری سڑک پر ایک بدبخت نوجوان نے چنگ چی (رکشہ جس کے پچھلے کھلے حصے میں سواریاں اپنی سمت آتے ٹریفک کی سمت منہ کرکے بیٹھتی ہیں) پر تیزی سے سوار ہوکر بیٹھی ہوئی نوجوان لڑکی کا بوسہ لیا اور اتر گیا۔ یہ کئی بدبختوں پر مشتمل ایک گروہ تھا جس میں سے کسی نے اس غلیظ منظر کی مووی بنالی جو بعد ازاں انٹرنٹ پر وائرل ہوگئی۔ اس لڑکی پر طاری بے بسی اور غصہ دیکھ کر دل کٹ کر رہ گیا۔
ہمارے ہاں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کو عام کرنے والی کئی چیزیں ہیں جن میں سے تین چیزیں بنیادی ہیں۔ پہلی چیز تربیت کا ختم ہو جانا ہے جس پر ہم کئی دفعہ بات کرچکے ہیں۔ دوسری وہ الٹی تربیت ہے جو مردوں کی مجرمانہ ذہنیت پر تنقید کے بجائے خاتون کے خلاف ہونے والے ایسے ہر جرم کی ذمہ دار خاتون ہی کو قرار دیتی ہے۔ تیسری چیز قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا ہے۔
حقیقت یہ ہے کوئی عورت اگر طوائف بھی ہے، تب بھی اس کے خلاف ہونے والے کسی جرم کے موقع پر مجرم کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے خاتون کو الزام دینا مجرموں کی حوصلہ افزائی کا دوسرا نام ہے۔اس طرح کی باتیں کرنے والے جہلا دین سے واقف ہوتے ہیں نہ دنیا کے علوم کی انھیں خبر ہوتی ہے۔ ایسے سنگ دل لوگ کوئی استدلال بھی نہیں سمجھتے۔ ان کا انجام یہ ہوگا کہ قیامت کے دن انھیں ان کی جہالت اور سنگ دلی کے ساتھ انھی مجرموں کے ہمراہ کھڑا کیا جائے گا۔
رہا قانون تو اس کا نفاذ اور مجرموں کو پکڑنا حکمرانوں کا کام ہے۔ اگر انھوں نے اپنی یہ ذمہ داری پوری نہیں کی تو ان کا انجام بھی روزِ قیامت مجرموں کے ساتھ ہوگا۔ یہ انجام بھڑکتی ہوئی آگ کا ہے جو ظالموں اور مجرموں کی چمڑی ادھیڑ دے گا۔ پھر ان کو نئی کھال پہنائی جائے گی اور پھر آگ دوبارہ ان کی کھال اتار دے گی۔ یہ ہے وہ ابدی انجام جو ان ظالموں کا مقدر ہے۔
By Abu Yahya (Dr. Rehan Ahmed Yousufi)


This free site is ad-supported. Learn more